(مصطفیٰ کمال، اوکاڑہ)
نفیسہ کی شادی کے ڈیڑھ سال کے بعد اس کے ہاں پہلے بیٹے نے جنم لیا۔نفیسہ ایک تو الگ گھر میں رہتی تھی اور یہ اس کا پہلا بچہ تھا دوسرے یہ کہ کم عمر ہونے کے باعث اسے چھوٹے بچوں خصوصاً نومولود کی دیکھ بھال کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا لہٰذا وہ اپنی مختصر معلومات کے مطابق اپنے نومولود بیٹے کی دیکھ بھال کرنے لگی۔
وقت گزرتا رہا، بچہ ابھی تقریباً ایک ماہ کا ہوا تھا کہ ایک صبح جب نفیسہ نے اسے نیند سے بیدار کرکے دودھ پلانا چاہا تو یہ دیکھ کر اس کے ہوش اُڑ گئے کہ بچے کا جسم بالکل ساکن، سرد اور اکڑا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر اس کے منہ سے زور دار چیخ نکلی تو پلنگ پر بچے کے برابر سویا ہوا اس کا شوہر بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ صورت حال اس کی سمجھ میں آئی تو وہ فوراً پڑوس میں رہنے والے ایک ڈاکٹر کو کو بلا کر لے آیا، جنہوں نے بچے کے جسم کا معائنہ کرنے کے بعد اس کی موت کی تصدیق کردی اور بتایا کہ نیند کی حالت میں کم از کم تین چار گھنٹے پہلے اس کی موت واقع ہوئی ہے جس کی وجہ ایس آئی ڈی ایس ہے۔
ایس آئی ڈی ایس کوئی جینیاتی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ نومولود کے سُلانے میں احتیاط نہ برتنے کے باعث اموات کا سبب بنتی ہے۔ نومولود بچے کو سُلانے میں اگر غفلت برتی جائے تو اس کے نتیجے میں اس کی پسلیاں ٹوٹ سکتی ہیں، اس کا نظام تنفس بند ہو سکتا ہے یا نیند کی حالت میں بستر سے گر جانے کے باعث سر پر لگنے والی چوٹ دماغ کو شدید نقصان پہنچا کر نومولود کی زندگی کے چراغ کو گُل کرسکتی ہے۔
دنیا بھر میں نومولود کی اچانک موت کی ایک بڑی وجہ آئی ایس ڈی ایس کو ہی سمجھا جاتا ہے اور نہ صرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں بھی آئی ایس ڈی ایس کے سبب ہر سال بڑی تعداد میں نومولود بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ میں آئی ایس ڈی ایس کے سبب بڑھتی ہوئی اموات کی شرح کو کم کرنے کے لیے باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہیں اور اس بات پر تحقیق کی جارہی ہے کہ اس طرح کی اموات کی شرح کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے۔ ایک غیر ملکی محقق کہتے ہیں کہ آئی ایس ڈی ایس کے سبب موت کے منہ میں جانے والے بچوں کی سالانہ شرح کل پیدا ہونے والے بچوں کا 20 فیصد ہے، جس کا بنیادی سبب والدین کا ان کےبچوں کو سُلانے کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرناہے۔
گزشتہ چند برس قبل دنیا کے مختلف ممالک میں بھی ’’نیند کی حالت میں نومولود بچوں کی اموات‘‘ کی شرح بہت زیادہ تھی۔ محکمہ صحت نے اس حوالہ سے معالجین سے رجوع کیا اور بنیادی نکتہ یہ قرار پایا کہ اگر والدین خصوصاً ماں نومولود بچے کے سلانے میں احتیاطی تدابیر بروئے کار رکھے اور نیند کی حالت میں بھی اس کا جائزہ لے کر یہ تسلی کرتی رہے کہ وہ کسی غیر معمولی صورت حال کا شکار تو نہیں ہورہا ہے تو پھر یہ صورت حال اموات کی شرح کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔اس کے بعد ’’بیک ٹوسلیپ‘‘ مہم شروع کی اور اس کے بعد سے آئی ایس ڈی ایس کے سبب نومولود بچوں کی شرح اموات میں 50 فیصد تک کی کمی واقع ہوئی ہے۔
پہلی مرتبہ ماں بننے والی خواتین سلانا‘ کھلانا اور پلانا سیکھ لیں!
ایک غیر ملکی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’’عموماً مائوں کو خاص طور پر ایسی خواتین جو پہلی مرتبہ ماں بنتی ہیں، نومولود کی خوراک اور اسے سلانے کے بارے میں کوئی آگہی حاصل نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے یہ بچے مسلسل خطرے کی زد میں رہتے ہیں تاہم اگر ان کی دیکھ بھال میں احتیاط برتی جائے تو آئی ایس ڈی ایس کے سبب ہونے والی شرح اموات کو بہت کم کیا جاسکتا ہے‘‘۔
آئی ایس ڈی ایس اگرچہ جینیاتی یا موروثی بیماری نہیں ہے تاہم یہ نومولود کے سلانے، کھلانے اور پلانے میں کی گئی بے احتیاطی کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے، لہٰذا اگر نومولود کی ماں اس سلسلے میں بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرلے تو بچے کے سر پر لٹکتی ہوئی اس خطرے کی تلوار کو اتارا جاسکتا ہے۔
معالجین نومولود کی دیکھ بھال اور اسے سلانے کے مائوں کی رہنمائی کے لیے درج ذیل ہدایات پر عمل تجویز کرتے ہیں:
(۱)اگر ماں اور باپ جہازی سائز کے پلنگ پر سوتے ہیں اور بچے کو بھی اسی بیڈ پر اپنے درمیان سلاتے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی سوتے میں ہاتھ پائوں چلانے اور بہت زیادہ کروٹیں بدلنے کی عادت ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ بچے کو بیڈ کے برابر اس کے لیے تیار کردہ خصوصی پلنگ پر علیحدہ سلایا جائے تاکہ وہ کسی بھی قسم کی چوٹ لگنے سےمحفوظ رہے۔
(۲)مولود کی نیند کی حالت میں اچانک موت کا ایک سبب نظام تنفس میں رکاوٹ یا دم گھٹنا بھی ہوتا ہے۔ جو بچے والدین کے درمیان میں سوتے ہیں وہ اس خطرے کا زیادہ شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ کمرے میںایک ساتھ موجود دو بڑوں کے مقابلے میں اس ننھی سی جان کو سانس لینے میں اس لئے بھی رکاوٹ محسوس ہوتی ہے کہ آکسیجن کا بڑا حصہ والدین کے پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے تاہم بیڈ کے برابر چھوٹے سے پلنگ پر سونے کے دوران اسے بغیر رکاوٹ آکسیجن ملتی رہتی ہے۔
(۳)بچوں کو پیٹ کے بجائے پیٹھ کے بل سلانے کی عادت ڈالیں۔ اس طرح بھی وہ دم گھٹنے کے خطرے سے زیادہ محفوظ رہ سکتا ہے۔
(۴)نیند کی حالت میں بچے کا چہرہ کسی کمبل یا موٹی چادر سے نہ ڈھانپیں بلکہ اسے کھلا رہنے دیں۔ اس طرح اسے بلا روک ٹوک آکسیجن پہنچتی رہتی ہے۔
(۵)نومولود کو اس کی عمر کے ابتدائی چھ ہفتوں تک کسی موٹے کپڑے یا چادر میں لپیٹ کر رکھیں۔ اس طرح نومولود کو جذباتی طور پر تحفظ محسوس ہوتا ہے اور وہ آرام سے سوتا ہے۔ واضح رہے کہ چھوٹے بچوں کا خود پر قابو نہیں ہوتا ہے اور وہ ذرا سی آہٹ ہونے پر بھی چونکتے ہیں لیکن کپڑے میں لپیٹ کر لٹائے جانے سے وہ خود محفوظ سمجھتے ہیں۔
(۶)جس کمرے میں بچے کو سُلایا اور لٹایا جائے خصوصاً رات کو تو وہ کمرہ ہوا دار ہو اور گھٹن سے پاک ہونا چاہیے تاکہ اسے آکسیجن باآسانی ملتی رہے۔
(۷)بچے کو نہلاتے وقت زیادہ سخت ہاتھوں سے نہ رگڑیں۔ ایسی صورت میں اس کی پسلیاں اور جسم کی دیگر ہڈیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
(۸)بچے کو لٹاتے اور سلاتے وقت بھی یہ احتیاط رکھیں کہ کہیں وہ سوتے میں لڑکھڑا کر بیڈ سے نیچے نہ جاگرے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں